شکست کے بعد گھر سے نکلنے کو دل نہیں چاہتا تھا
انھوں نے واشنگٹن ڈی سی میں کہا کہ وہ اس قدر مایوس تھیں کہ اپنے گھر سے باہر نہیں نکلنا چاہتی تھیں۔
انھوں نے بچوں کے ایک خیراتی ادارے کو بتایا کہ انتخابات نے بہت سے امریکیوں کو موقع دیا ہے کہ وہ اپنے گریبان میں جھانک کر دیکھیں۔
کلنٹن نے مجموعی طور پر زیادہ ووٹ حاصل کیے تھے لیکن وہ الیکٹورل کالج کی گنتی میں ڈونلڈ ٹرمپ سے پیچھے رہ گئیں۔
انھوں نے چلڈرنز ڈیفنس فنڈ کو بتایا: ‘مجھے اعتراف ہے کہ یہاں آنے کا فیصلہ آسان نہیں تھا۔
‘پچھلے ہفتے میں ایسے لمحے آئے جب میں کوئی اچھی کتاب لے کر بستر پر لیٹے رہنا چاہتی تھی اور میرا کبھی بھی گھر سے باہر نکلنے کو جی نہیں چاہتا تھا۔
‘میں جانتی ہوں کہ آپ میں سے بہت سے لوگوں کو شدید مایوسی ہوئی ہے۔ میں بھی مایوس ہوں، اتنی کہ الفاظ بیان نہیں کر سکتے۔
‘میں جانتی ہوں کہ یہ آسان نہیں ہے۔ میں جانتی ہوں کہ گذشتہ ہفتے بہت سے لوگوں نے خود سے سوال کیا ہے کہ کیا امریکہ وہی ملک ہے جیسا ملک ہم اسے سمجھتے تھے۔
’انتخاب سے خلیج گہری ہو گئی ہے، لیکن میری بات غور سے سنیں۔ امریکہ کی خاطر، اپنے بچوں کی خاطر، اپنے ملک پر اعتماد رکھیں، اپنی اقدار کے لیے لڑیں اور کبھی بھی ہمت نہ ہاریں۔’
اپنی شکست کے بعد سے ہلیری کلنٹن نے خود کو محدود رکھا ہوا تھا، البتہ چند دن پہلے انھیں چہل قدمی کرتے ہوئے دیکھا گیا تھا۔
اس سے پہلے افشا ہونے والی ایک فون کال میں انھوں نے اپنی شکست کی ذمہ داری ایف بی آئی کے ڈائریکٹر جیمز کومی پر ڈالی تھی۔
ادھر نیویارک کے میئر نے کہا ہے کہ انھوں نے نومنتخب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے کہا ہے کہ نیویارک کے شہری ‘خوف زدہ’ ہیں ان کی انتظامیہ کیا تبدیلیاں لے کر آئے گی۔
بل ڈی بلازیو نے کہا کہ ٹرمپ ٹاور میں ایک ملاقات کے دوران انھوں نے ٹرمپ کو خبردار کیا کہ وہ بغیر دستاویزات تارکینِ وطن کو ملک بدری سے بچانے کی کوشش کریں گے۔
انھوں نے کہا کہ ‘تارکینِ وطن کے حتمی شہر میں ٹرمپ کا منصوبہ نہیں چلے گا۔’
ٹرمپ نے کہا تھا کہ وہ اقتدار میں آنے کے بعد لاکھوں غیرملکی تارکینِ وطن کو ملک بدر کر دیں گے۔