روس نے ٹرمپ کی حمایت میں انتخابی عمل میں مداخلت کی
ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ انٹیلیجنس ایجنسیاں ’وثوق سے’ کہہ سکتی ہیں کہ روس نے امریکہ کے حالیہ انتخاب میں ہیکنگ کی ہے۔
امریکہ کی خفیہ ایجنسی سی آئی اے کی رپورٹ کے بارے میں اسی طرح کی رائے کا اظہار کیا ہے۔
دوسری جانب امریکہ کے نو منتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے سی آئی اے کے اس دعوے کو مسترد کرتے ہوئے کہا ‘ یہ وہی لوگ ہیں جو کہتے تھے کہ عراق کے سابق صدر صدام حسین کے پاس وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیار تھے۔’
ادھر روسی حکام کی جانب سے ہیکنگ کے الزامات کی تردید کی گئی ہے۔
اس سے پہلے امریکی صدر براک اوباما نے جعمے کو امریکہ کے صدارتی انتخاب کے دنوں میں ہونے والے سلسلہ وار سائبر حملوں کی تحقیقات کا حکم دیا تھا۔
واضح رہے کہ ان حملوں کا الزام روس پر عائد کیا جاتا ہے۔
ہیکروں نے ڈیموکریٹک پارٹی اور صدراتی امید وار ہیلری کلنٹن کی ای میلز کو نشانہ بنایا تھا۔
اکتوبر میں امریکی حکام کی جانب سے روس کی جانب انگلی اٹھائی گئی تھی اور اس پر امریکی انتخابات میں مداخلت کا الزام عائد کیا تھا۔
انتظامی حکام کے حوالے سے بتایا کہ وہ سمجھتے ہیں کہ روس کے ہیکروں نے رپبلکن نیشنل کمیٹی اور رپبلکن پارٹی کے کمپیوٹر سسٹم کو ہیک کر لیا تھا۔
نیویارک ٹائمز کے مطابق انٹیلیجنس ایجنسیوں کا کہنا ہے کہ روس کے ہیکروں نے ان دستاویزات کو وکی لیکس کے حوالے کیا۔
خیال رہے کہ ڈیموکریٹس نے اس وقت انتہائی ناراضی کا اظہار کیا تھا جب ہیکروں نے ڈیموکریٹک نیشنل کمیٹی اور ہلیری کلنٹن کی انتخابی مہم کے چیئرمین جان پوڈیسٹا کے ای میل اکاؤئنٹس تک رسائی حاصل کر لی تھی۔
پوڈیسٹا کی ای میلز تک وکی لیکس کی رسائی ہو گئی تھی اور انھیں آن لائن پوسٹ کر دیا گیا تھا۔
ایک سینئیر امریکی اہلکار کے حوالے سے بتایا کہ ‘انٹیلیجنس ایجنسیوں’ نے ایسے ‘افراد کی نشاندہی کی ہے جن کے روسی حکومت سے تعلقات تھے اور روس نے ہزاروں ای میلز وکی لیکس کے حوالے کیں۔
ایک موقعے پر ڈونلڈ ٹرمپ نے روس کا نام لیتے ہوئے ہیکروں کی حوصلہ افزائی کی تھی کہ وہ ہلیری کلنٹن کی ای میلز ‘تلاش’ کریں، تاہم اس بات پر شدید ردعمل آنے کے بعد ان کا کہنا تھا کہ وہ طنز کر رہے تھے۔
ڈیموکریٹس کا دعویٰ ہے کہ یہ ہیکنگ ہلیری کلنٹن کی انتخابی مہم کو نقصان پہنچانے کی سوچی سمجھی کوشش تھی۔
وائٹ ہاؤس کے ترجمان ایرک شلز کا کہنا ہے ‘صدر اوباما اپنے دورِ اقتدار ہی میں اس بارے میں تحقیقات کروانا چاہتے ہیں کیونکہ وہ اس بارے میں بہت سنجیدہ ہیں۔’
تاہم یہ واضح نہیں کہ اس تحقیقاتی جائزے کو عوام کے سامنے پیش کیا جائے گا نہیں۔