دنیا

شامی صدر بشار الاسد.ایک ہفتے کے اندر اندر جنگ بندی نا ممکن ہے

شامی صدر بشار الاسد نے عالمی طاقتوں کی جانب سے شام میں جنگی اقدامات اور کارروائیاں روکنے کے منصوبوں پر شکوک کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ان پر عمل کرنا مشکل ہوگا۔

ادھر فرانس اور ترکی نے شمالی شام میں ہسپتالوں پر فضائی حملوں کو جنگی جرائم قرار دیا ہے۔

گذشتہ ہفتے شام کے بحران پر جرمنی میں ہونے والے مذاکرات کے بعد عالمی طاقتیں شام میں ’جنگی اقدامات اور کارروائیاں روکنے‘ پر متفق ہو گئی تھیں تاہم یہ جنگ بندی دولتِ اسلامیہ اور النصرہ فرنٹ جیسے شدت پسند اور جہادی تنظیموں کے لیے نہیں تھی۔

’جنگ بندی‘ کے اس سلسلے کا آغاز رواں ہفتے میں کسی وقت متوقع ہے۔

پیر کو ٹیلی ویژن پر نشر ہونے والے بیان میں شامی صدر بشار الاسد نے کہا کہ ’اس قسم کی جنگ بندی کا مطلب یہ نہیں ہے کہ تمام تنظیمیں ہتھیار ڈال دیں گی۔‘

بشار الاسد کا کہنا تھا کہ ’اب تک تو ان کا کہنا ہے کہ وہ ایک ہفتے کے اندر اندر جنگ بندی چاہتے ہیں۔ لیکن ایک ہفتے کے اندر کون تمام مطالبات اور شرائط کو جمع کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے؟‘

بشار الاسد کا کہنا تھا کہ ’دہشت گردوں کے ساتھ کون بات کرے گا؟ اگر دہشت گرد جنگ بندی کو مسترد کر دیتے ہیں تو انھیں کون روکے گا؟ عملی طور پر یہ مشکل ہے۔‘

انھوں نے یہ بھی کہا کہ ’جنگ بندی کا مطلب یہ نہیں ہونا چاہیے کہ ہر کوئی ہتھیاروں کا استعمال روک دے۔ اس کا مطلب دہشت گردوں کو اپنی پوزیشن مستحکم کرنے سے روکنا ہونا چاہیے۔ ہتھیاروں، آلات، اور شدت پسندوں کی ترسیل یا پوزیشن مستحکم کرنے کی ممانعت ضروری ہے۔‘

بشار الاسد نے جنگ بندی کے اس منصوبے کے اعلان کے بعد کہا تھا کہ شام میں باغیوں کو شکست دینے میں کچھ وقت لگے گا کیونکہ انھیں بیرونی مدد حاصل ہے لیکن وہ پورے ملک پر اپنا کنٹرول بحال کر کے رہیں گے۔

صدر اسد نے کہا کہ وہ شام میں امن بحال کرنے کے لیے عالمی سطح پر کی جانے والی کوششوں کے باوجود وہ دہشت گردوں کے خلاف جنگ جاری رکھیں گے۔

دوسری جانب اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ شمالی شام میں سلسلہ وار حملوں سے جنگ بندی کے امکانات پر ’گہرے سائے‘ چھا گئے ہیں۔

اقوامِ متحدہ کا کہنا ہے کہ اس خطے میں سکولوں اور ہسپتالوں پر میزائلوں کے حملوں میں کم از کم 50 افراد ہلاک ہوئے ہیں۔

فرانس کا کہنا ہے وہ سخت الفاظ میں ایم ایس ایف کے کلینک پر بمباری کی مذمت کرتا ہے جبکہ فرانسیسی وزیرِ خارجہ ژاں مارک ایرالٹ نے کہا ہے کہ ایسے حملے ’جنگی جرائم ہیں۔‘

ترک حکام نے بھی ان حملوں کو واضح جنگی جرائم قرار دیا ہے۔

ترکی کی وزارتِ خارجہ نے روس کو ان حملوں کے لیے ذمہ دار ٹھہرایا ہے جبکہ روس کی جانب سے تاحال اس الزام کا کوئی جواب نہیں دیا گیا۔

شام کے تنازع کی وجہ سے ترکی اور روس کے تعلقات کشیدہ ہیں۔ روس شام میں باغیوں کے خلاف شامی حکومت کی عسکری کارروائی کی حمایت کر رہا ہے لیکن اس کا کہنا ہے کہ وہ صرف ان عناصر کو نشانہ بنا رہا ہے جو ’دہشت گرد ہیں۔‘

دریں اثنا شام کی صورتحال پر نظر رکھنے والے گروپ سیریئن آبزرویٹری فار ہیومن رائٹس نے کہا ہے کہ کرد ملیشیا نے شمالی شام میں تل رفعت نامی قصبے سے باغیوں کا قبضہ ختم کروا دیا ہے۔

’وائے پی جی‘ سے تعلق رکھنے والے کرد فوجیوں نے یہ کامیابی اپنی پوزیشنوں پر ترکی کی جانب سےگذشتہ تین دن سے جاری گولہ باری کے باوجود حاصل کی۔

ترکی اس ملیشیا کو اپنے ملک میں سرگرم کالعدم کرد جماعت پی کے کے کا ساتھی سمجھتا ہے۔

ترک وزیرِ اعظم احمد داؤد اوغلو نے خبردار کیا ہے کہ اگر کرد ملیشیا نے تل رفعت کے بعد ترک سرحد کے ساتھ واقع شامی علاقے اعزاز پر قبضے کی کوشش کی تو انھیں ’سخت ترین ردعمل‘ کا سامنا کرنا پڑے گا۔

Tags

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close