جلّی کٹّو کے کھیل میں دو افراد کی ہلاکت
انڈیا کی جنوبی ریاست تمل ناڈو کے رپوسل میں یہ کھیل دو سال بعد منعقد کیا گیا تھا کیونکہ عدالت عظمی نے سنہ 2014 میں اس پر پابندی لگا دی تھی۔
لیکن سنیچر کو حکومت نے بڑے پیمانے پر احتجاجی مظاہروں کے بعد اس کھیل سے عارضی طور پر پابندی ہٹا لی تھی۔
اس کے بعد تمل ناڈو کے مختلف شہروں میں اتوار کو اس کھیل کا انعقاد کیا گیا جہاں انھیں دیکھنے کے لیے تماشائیوں کی بھیڑ امڈ آئی تھی۔
گذشتہ روز رپوسل میں منعقد ہونے والے کھیل میں کئی افراد زخمی بھی ہوئے ہیں۔
ریاست میں غصے میں بپھرے ہوئے سانڈ کو قابو میں کرنے والے اس کھیل کا فصل کی کٹائی کے تہوار کے ایک حصے کے طور پر روایتا بڑے دھوم دھام سے انعقاد کیا جاتا رہا ہے۔
لیکن عدالت نے ’جلّی کٹّو‘ کو جانوروں پر ظلم کہتے ہوئے کالعدم قرار دیا تھا۔
جانوروں کے حقوق کے علمبرداروں کا کہنا ہے کہ جب سانڈ کو انسانوں کے درمیان چھوڑا جاتا ہے تو اس پر شدید دباؤ ہوتا ہے اور پھر اسے خود پر سواری کرنے والے شخص سے بچنا بھی ہوتا ہے۔
بہر حال تمل ناڈو میں بہت سے لوگ اس پابندی کے خلاف ہیں اور وہ اسے اپنی ثقافت کے ایک اہم حصے کے طور پر دیکھتے ہیں. ان کی دلیل یہ ہے کہ اس سے دیسی قسم کے سانڈ کا تحفظ بھی ہوتا ہے۔
حالیہ دنوں میں ریاست کے دارالحکومت چینئی (مدراس) میں بڑے پیمانے پر پابندی کے خلاف مظاہرے ہوئے اور اسے از سر نو پوری طرح قانونی قرار دیے جانے کا مطالبہ کیا جا رہا ہے۔
وزیر اعلی او پنیرسلوم سمیت ریاست کے بیشتر وزیر جلّی کٹّو کی حمایت کرتے ہیں یہاں تک کہ آسکر انعام سے سرفراز موسیقار اے آر رحمان بھی اس کے حامی ہیں۔