دنیا

شام میں قیامِ امن کے لیے مذاکرات کا آغاز

شام میں قیام عمل کے حوالے سے کوشش تیز کردی گئی ہیں، اس سلسلے میں قازعستان کے دارالحکومت آستانہ میں آج سے مذاکرات کا آغاز کردیا گیا ہے.

حکومت اورشامی گروہوں کے درمیان مذاکرات روس ، ترکی اور ایران کی زیرنگرانی ہوں گے ، جس میں ثالث کا کردار روس اور ایران ادا کریں گے، جبکہ ترکی پر باغیوں کی کی سرپرستی کرنے کا الزام ہے، تاہم انقرہ شام میں قیام امن کے لئے متحرک ہے.

مذاکرات کا یہ نیا سلسلہ دو روز پر مشتمل ہے، یاد رہے گذشتہ سال 2016 کی ابتدا میں شام میں قیام امن کے حوالے سے مذاکرات کا سلسلہ منعقد کیاگیا تھا، جس میں ثالث کا کرادا امریکہ نے ادا کرنے کی کوشش کی تھی، تاہم چند وجوہات کی بیناد پر اسے موخر کردیا گیا تھا.

موجودہ مذاکرات کی انفرادیت یہ کہ اس بات چیت میں پہلی بار شامی پارلیمان کے حزب اختلاف کے نمائندے باغیوں کی نمائندگی کرینگے اور ان کا موقف حکومت اور ثالثوں کے درمیان رکھیں گے.

یہاں اس بات کی وضاحت بھی ضروری ہے کہ بات چیت کے اس عمل میں داعش کو شامل نہیں کیا گیا ہے، بلکہ شام کے مقامی باغی اپنی حکومت کے سامنے تحفظات کا اظہار کریں گے.

مذاکرات کے اس عمل میں امریکہ میں مقیم شام کے سفیر سٹافغان میسترہ شرکت کرینگے ،اس سلسلے میں روس کا کہنا ہے کہ ہم پر بھاری ذمے داری ہے ، ہم اس پر پورا اترنے کی کوشش کرینگے ، ہمیں یہ یقین نہیں تھا کہ متحارب جماعیتں بات چیت کے اس عمل کا حصہ بنے میں رضامندی ظاہر کی ، تاہم یہ غیر متوقع صورتحال رونما ہوئی جو خوش آئند ہے ،آگے بھی معاملات بہتری کی جانب جائنگے، جبکہ قازعستان کے وزیر خارجہ نے امید ظاہر کی کہ منگل کو اس مذاکرات کا اختدام مثبت نکتے پر ہوگا.

دوسری جانب شام کی طرف سے بات چیت کے اس عمل کی نمائندگی بشارالاسد کریں گے، سرکاری ٹی وی کو انٹرویو دیتے ہوئے شام کے صدرکا کہنا تھا کہمذاکرات کے نتیجے میں  شام کے معروضی حالات میں مثبت تبدیلی لانے کے خواہشمند ہیں.

یاد رہے گذشتہ سال دسمبر میں روس اور ترکی نے شام میں جنگ بندی کے حوالے سے نمایاں کرادا ادا کیا تھا ، روس نے داعش کے جنگجو اقدامات کے خلاف کاروائی کی تھی اور داعش کے تسلط سے دمشق کو آزاد کروایا تھا.

روس ، ایران اور ترکی شام میں قیام امن کا خواہاں ہے اور اس سلسلے میں شام کی حکومت اور باغیوں کے درمیاں اختلافات کو زائل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں ، مذاکرات کا یہ عمل 2 روز پر مشتمل ہے جو منگل کو ختم ہوگا ، جبکہ اس کا دوسرا دورجینوا میں معنقد کیا جا ئیگا ۔

سیاسی مبصرین کے مطابق شام کے مسئلے کا فوری حل خطے کے امن کے لئے بہت ضروری ہے ، مبصرین کے مطابق اگراس تنازعہ کا مثبت حل نہین نکالا گیا تو دنیا تیسری جنگ عظیم کی جانب تیزی کےساتھ چلی جائےگی۔

Tags

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close