شامی پناہ گزین کا ڈونلڈ ٹرمپ کے نام خط
امریکا کے 45 ویں صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے دو روز قبل اپنےعہدے کا حلف ا ٹھا لیا۔ حلف اٹھاتے ہی انہوں نے پہلے ایگزیکٹو آرڈر پر دستخط بھی کردیے۔
لیکن دنیا کے لیے باعث تشویش ان کے وہ بیانات ہیں جو وہ وقتاً فوقتاً اپنی انتخابی مہم کے دوران دیتے رہے ہیں۔ میکسیکو کے ساتھ دیوار بنانے اورپناہ گزینوں کو ملک سے نکال دینےکے ان کے بیانات نے دنیا کے مستقبل پر ایک سوالیہ نشان کھڑا کردیا ہے جو اس وقت تاریخ میں پناہ گزینوں کی سب سے بڑی تعداد کی میزبانی کر رہی ہے۔
مشرق وسطیٰ کا ملک شام گزشتہ 5 برسوں سے جنگ کا شکار ہے اور وہاں سے 40 لاکھ لوگ ہجرت کر کے دربدر دھکے کھانے پر مجبور ہیں۔ کچھ خوش نصیبوں کو کسی ملک میں پناہ مل گئی، کوئی تاحال سرحد پر حسرت و یاس کی تصویر بنا بیٹھا ہے۔
ایسے ہی ایک شامی پناہ گزین نے ڈونلڈ ٹرمپ کے نام خط لکھا ہے۔ عبدالعزیز نامی 18 سالہ نوجوان اپنے خط میں لکھتا ہے۔
محترم ڈونلڈ ٹرمپ!
میں ان 40لاکھ مھا جرین میں سے ایک ہوں جنہیں شام سے ہجرت کرنی پڑی۔ ہم اپنے دل اور اپنے پیاروں کی لاشوں کو پیچھے چھوڑ آئے ہیں۔ یہ دونوں ہی کہیں کسی سڑک پر دفن ہوچکے ہیں۔
میں آپ کو صدارت کے عہدے کی مبارکباد دیتا ہوں، لیکن ساتھ ہی آپ کو یاد دلاتا چلوں کہ آپ کے الفاظ ہمارے مستقبل کا تعین کریں گے۔
ہم نے اس انقلاب کا آغاز پھولوں کے ساتھ کیا تھا اور ہمیں امید تھی کہ عالمی برادری ہمارا ساتھ دے گی۔ برسوں گزر گئے، پھول ہتھیاروں میں تبدیل ہوگئے، لیکن ہماری امید اب بھی برقرار ہے۔
ہم شامیوں میں سے کوئی بھی اپنا گھر، اپنا ملک نہیں چھوڑنا چاہتا تھا۔ لیکن جب زمین پر ٹینک ہوں، اور آسمان سے موت برس رہی ہو تو ہم کیا کرسکتے ہیں؟ ہم اپنے تباہ شدہ گھروں اور شہروں کو دیکھتے ہوئے پہلے ترکی گئے پھر یونان گئے۔
اب ہم پناہ گزین ہیں۔ اور کیا آپ جانتے ہیں، ایک مہاجر کیمپ میں رہتے ہوئے سب سے تکلیف دہ بات کیا ہے؟ وہ ہے اچھوتوں کی طرح علیحدہ کردینا۔ لوگ ہمارے کیمپوں کے گرد دیواریں بنا رہے ہیں۔ ملک ان دیواروں کے گرد مزید دیواریں بنا رہے ہیں۔
ہم کمزور ہیں، ہم چاہتے ہیں کہ عالمی برادری ہماری مدد کرے۔ صرف یقین اور امید ہی ہمیں آگے بڑھنے پر مجبور کر رہی ہے۔
محترم صدر!
دیواریں خوابوں کو قتل کردیتی ہیں۔ میں نے خوابوں کو ان جسموں سے پہلے مرتے دیکھا ہے جن میں وہ قید تھے۔ یہ قتل انسان کی روح کو ختم کردیتا ہے۔ ابھی ہم جیسے کچھ لوگ ہیں جنہیں کچھ امید باقی ہے، خدارا ہمارے گرد دیواریں نہ قائم کریں۔
عزیز صدر!
آپ کے الفاظ ہمارے مستقبل کا تعین کریں گے۔ ہوسکتا ہے کل میں ایک پناہ گزین نہ رہوں، کسی ملک میں مجھے سر چھپانے کو کوئی محفوظ مقام مل جائے۔ ہوسکتا ہے کل کو میں اپنے وطن واپس لوٹ جاؤں اور پھر سے اسے تعمیر کروں۔ یہ سب کچھ آپ پر منحصر ہے۔
مجھے امید ہے کہ کوئی ہماری آواز ضرور سنے گا۔ مجھے امید ہے کہ آپ ہمیں ضرور سنیں گے اور سمجھیں گے۔