یونان بغاوت کرنے والوں کا تحفظ اور میزبانی کر رہا ہے
ترکی نے گذشتہ سال ہونے والی ناکام فوجی بغاوت کے بعد ملک چھوڑ کر یونان جانے والے آٹھ فوجیوں کے خلاف دوبارہ مقدمہ چلانے کا مطالبہ کیا ہے۔
یونان کی سپریم کورٹ نے گذشتہ روز ترکی کے ان آٹھ فوجیوں کو ترکی کے حوالے کرنے کے خلاف فیصلہ دیا تھا۔
ترکی کا یہ بھی کہنا ہے کہ وہ یونان کے خلاف مائیگریشن کے معاہدے کو ختم کرنے جیسے اقدامات بھی لے سکتا ہے۔
ترک وزیر خارجہ مولود چاویش اوغلو نے سرکاری نشریاتی ادارے ٹی آر ٹی کو بتایا ہے کہ ’ہم ان آٹھ فوجیوں کے خلاف دوبارہ مقدمہ چلانے کا مطالبہ کرتے ہیں، یہ ایک سیاسی فیصلہ تھا، یونان فوجی بغاوت کی منصوبہ بندی کرنے والوں کا تحفظ اور میزبانی کر رہا ہے۔‘
مولود چاویش اوغلو کا مزید کہنا ہے کہ ’ہم جائزہ لے رہے ہیں کہ ہم کیا کر سکتے ہیں۔ ایک مائیگریشن معاہدہ ہے جس پر ہم نے دستخط کر رکھے ہیں اور ایک دوبارہ داخلے کا معاہدہ ہے، ہم دوبارہ داخلے کے معاہدے کو منسوخ کرنے کا جائزہ لے رہے ہیں۔‘
خیال رہے کہ یہ آٹھ فوجی ترکی میں ہونے والی ناکام فوجی بغاوت کے بعد ایک ہیلی کاپٹر کی مدد سے یونان چلے گئے تھے اور ان کا موقف تھا کہ وہ بغاوت میں ملوث نہیں تھے۔
ترکی نے یونان سے ان کی واپسی کا مطالبہ کیا تھا۔ ترک سپاہیوں کا کہنا ہے کہ ترکی میں ان کی زندگیوں کو خطرہ ہے۔
یہ مقدمے سفارتی طور یونان کے لیے ایک مشکل صورت حال بن کر اُبھرا ہے۔
اس معاملے کی وجہ سے نیٹو کے اتحادیوں میں تناؤ پیدا ہوا ہے جو آج کل منقسم قبرص کے درمیان امن معاہدہ کروانے کی کوششوں میں ہیں۔
فوجی بغاوت کے بعد ترکی میں مختلف شعبوں سے منسلک دسیوں ہزار افراد کو اپنی نوکریوں سے نکال دیا گیا جس میں فوجی افسران حکومتی اہلکار اور سکول ٹیچر شامل ہیں۔