ہمیں افغانستان میں نیٹو افواج کے جانے کے بعد کے خطرات کا اندازہ ہے
نیٹو سیکریٹری جنرل یین اسٹولٹن برگ نے کہا ہے کہ افغانستان سے اتحادی افواج کے انخلا کے بعد ہم افغان فوج کو ملک سے باہر ٹریننگ دینے پر غور کر رہے ہیں۔
ان خیالات کا اظہار انہوں نے نیٹو وزرائے خارجہ و دفاع کی کل شروع ہونے والی میٹنگ سے ایک روز قبل آن لائن پریس کانفرنس سے خطاب اور صحافیوں کے سوالات کا جواب دیتے ہوئے کیا۔
انہوں نے کہا کہ ہمیں افغانستان میں نیٹو افواج کے جانے کے بعد کے خطرات کا اندازہ ہے لیکن افغانستان میں رکنے کے خطرات بھی ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ کچھ عرصے تک نیٹو افواج افغانستان سے چلی جائیں گی لیکن ہم وہاں اپنی سویلین موجودگی برقرار رکھیں گے۔
نیٹو افغان فوج کے لیے وسائل کے علاوہ اس کے ایئرپورٹس کی بہتری اور اس کی افواج کو افغانستان سے باہر ٹریننگ دینے کی تجویز پر غور کررہا ہے۔
سیکٹری جنرل نیٹو نے مزید کہا کہ ہم افغانستان کے مسئلے حل کے لیے افغانوں کے درمیان افغانوں ہی کے ذریعے اس مسئلے کے حل پر یقین رکھتے ہیں، کبھی نہ کبھی تو افغان فورسز کو اپنے ملک کی سیکورٹی اپنے ہاتھ میں لینی ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ ہم افغانستان میں 20 سال سے تھے۔ ہمارا افغانستان میں رکنے کا کبھی بھی ارادہ نہیں تھا، اسی لیے ایک لاکھ فوج سے اب ہم مکمل انخلاء کی طرف جارہے ہیں۔
اس موقع پر انہوں نے بتایا کہ نیٹو وزرائے خارجہ و دفاع اس اجلاس میں 14 جون کو برسلز میں منعقد ہونے والی نیٹو سمٹ کی تیاریوں پر توجہ دیں گے، جبکہ اس کے علاوہ افغانستان، یوکرین اور بیلاروس میں پیش رفت اور نارتھ اٹلانٹک الائنس کے مستقبل کا نیٹو 2030 ایجنڈا بھی زیر غور آئے گا۔
انہوں نے کہا کہ یہ ہمارے اتحاد اور ہماری اجتماعی سلامتی کے لیے اہم لمحہ ہے، نیٹو اور شمالی امریکا نیٹو میں ایک ساتھ مضبوط کھڑے ہیں۔
ایک اور سوال کے جواب میں سیکرٹری جنرل نے چین کو بیک وقت ساتھی اور ایک مقابل قرار دیتے ہوئے کہا کہ چین بہت جلد دنیا کی سب سے بڑی معیشت ہوگا۔
اس کے ساتھ ہی انہوں نے اس کی دیگر صلاحیتوں کا جائزہ لیتے ہوئے کہا کہ وہ اپنے دفاع پر دنیا میں دوسرے نمبر پر اخراجات کر رہا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اس کے پاس دنیا کی سب سے بڑی نیوی ہے اور وہ اپنے ہائپر سونک ہتھیار بھی بنارہا ہے، وہ ہم جیسی اقدار نہیں رکھتا۔