دنیا

صارفین کی ایک کثیر تعداد فیشن برانڈ ‘زارا’ سے باقاعدہ معافی مانگنے کا مطالبہ

سوشل میڈیا پر مسلمان صارفین کی ایک کثیر تعداد اب فیشن برانڈ ‘زارا’ سے باقاعدہ معافی مانگنے کا مطالبہ کر رہے ہیں جبکہ بہت سے صارفین ایسے ہیں جنھوں نے اس برانڈ کے بائیکاٹ کرنے کی کال دے رکھی ہے

شکایات موصول ہونے پر ڈیزائنر کی جانب سے معذرت کر لی گئی تھی جبکہ برانڈ انتظامیہ کا کہنا ہے کہ ‘زارا کے ملازمین کا تعلق دنیا کے 170 ممالک سے ہے لہٰذا ہم کسی قسم کے امتیازی سلوک کو برداشت نہیں کرتے۔

سوشل میڈیا پر جاری کیے جانے والے ان میسجز کے سکرین شاٹس میں دیکھا جا سکتا ہے کہ ماڈل قاہر کی فلسطین کی حمایت میں کی گئی پوسٹ پر ڈیزائنر نے ان پر بظاہر نسل پرستانہ اور اسلام مخالف جملے کسے ہیں۔

وینیسا نے پیغام میں کہا کہ ’شاید اگر تم لوگ تعلیم یافتہ ہوتے تو وہ ہسپتالوں اور سکولوں پر دھماکے نہ کرتے، جو اسرائیل کی مدد سے غزہ میں بنائے گئے ہیں۔‘

خیال رہے کہ اقوام متحدہ کے مطابق مئی میں اسرائیلی فورسز اور حماس کے جنگجوؤں کے بیچ 11 روز تک جاری جھڑپوں کے دوران غزہ میں 16 ہزار سے زیادہ گھر، 58 سکول یا تربیتی مراکز، نو ہسپتال اور 19 کلینک سمیت انفراسٹرکچر یا تو مکمل تباہ ہوا یا اسے جزوی نقصان پہنچا ہے۔

اس پیغام کی اس لیے بھی زیادہ مذمت کی جا رہی ہے کیونکہ قاہر کا تعلق مشرقی بیت المقدس کے علاقے سے ہے۔ انھیں اس پیغام میں یہ بھی کہا گیا کہ ’اسرائیلی شہری اپنے بچوں کو آپ لوگوں کی طرح نفرت کرنا یا پتھر پھینکنا نہیں سکھاتے۔

فیشن برانڈ ’زارا‘ کی ڈیزائنر کے ایک پیغام پر اسلاموفوبیا کا الزام بھی لگایا گیا جس میں وہ کہتی ہیں کہ ’یہ بات مضحکہ خیز ہے کہ آپ ماڈل ہیں مگر درحقیقت یہ مسلم عقائد کے خلاف ہے اور اگر آپ کسی مسلم ملک میں کھل کر سامنے آئیں گے تو آپ کو سنگسار کر دیا جائے گا۔

ماڈل کی جانب سے اس گفتگو کے سکرین شاٹس منظر عام پر لائے جانے کے بعد وینیسا پر کئی لوگوں کی جانب سے تنقید کی گئی جس کے بعد انھوں نے معذرت کی اور بتایا کہ اس کے بعد سے انھیں اور ان کے بچوں کو قتل کی دھمکیاں موصول ہو رہی ہیں۔

وینیسا کا یہ بھی کہنا تھا کہ ’امید ہے آپ مجھے معاف کر سکیں گے۔ اگر آپ اب بھی اپنی (انسٹاگرام) سٹوری میں میرے سے متعلق پوسٹ رکھنا چاہتے ہیں تو یہ آپ کی مرضی ہے۔ لیکن مجھے واقعی اپنے بچوں کے حوالے سے قتل کی دھمکیاں موصول ہو رہی ہیں۔‘

ماڈل قاہر نے فیشن برانڈ ’زارا‘ سے معافی کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ ‘انھیں اسلاموفوبیا کے مسئلے پر بات کرنا ہوگی جسے یورپی معاشرہ نظر انداز کرتا ہے۔۔۔ جب کچھ فیشن ڈیزائنرز نے یہودیوں کے خلاف بات کی تھی تو انھیں نوکری سے نکال دیا گیا تھا۔‘

 

یہ بھی پڑھیں: پاگل نہیں ہوں، اپنا برانڈ لانچ کرنے جارہی ہوں

ان کا کہنا ہے کہ انھوں نے اس لیے وینیسا کی معافی کو مسترد کیا کیونکہ وہ مسلسل اسرائیلی موقف کا دفاع کر رہی ہیں اور اس کے ساتھ انھوں نے اپنے فالوورز سے فیشن برانڈ ’زارا‘ کے بائیکاٹ کا مطالبہ کر رکھا ہے۔

 

قاہر کا دعویٰ ہے کہ شوبز میں بیلا حدید جیسے لوگ فلسطین کے بارے میں بات کر کے بہت بڑا خطرہ مول لیتے ہیں اور انھیں دباؤ کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

اس تنقید کے بعد کئی لوگوں نے فیشن برانڈ ’زارا‘ سے بذریعہ ای میل شکایت بھی کی ہے جبکہ وینیسا نے اپنے سوشل میڈیا پیجز کو بند کر دیا ہے۔

جبکہ ردا کا کہنا تھا کہ وہ آج ہی اپنی الماری سے اس برانڈ کے کپڑے نکال دیں گی۔ وہ لکھتی ہیں کہ ’انھیں پھینک کر ہی میں پُرسکون انداز میں زندگی گزار سکوں گی۔‘ اور ہالا کہتی ہیں کہ انھوں نے زارا سے خریدے گئے 100 ڈالر کے کپڑے واپس کردیے ہیں۔

سحر کے مطابق وہ اس لیے مایوس ہیں کیونکہ زارا ان کے پسندیدہ برانڈز میں سے ایک ہے۔ ‘ایسا رویہ قابل قبول نہیں۔
کچھ صارفین نے زارا کی حمایت بھی کی ہے اور کہا ہے کہ اس پورے معاملے میں فیشن برانڈ کا کوئی قصور نہیں۔

 

ایک صارف نے لکھا کہ ’زارا کو اس مشتعل آن لائن ہجوم کے سامنے گھٹنے نہیں ٹیکنے چاہییں ۔۔۔ مسلمان ممالک میں ہم جنس پرستوں کے ساتھ امتیازی سلوک ایک سچ ہے۔‘

موہی ہاشمی لکھتے ہیں کہ ‘ہر دن کسی ایسے کاروبار کے خلاف ٹرینڈ چلتا ہے جس سے پاکستانیوں کو فائدہ پہنچ رہا ہے۔ زارا دنیا میں کپڑوں کا سب سے بڑا ریٹیلر ہے اور یہ پاکستان سے کافی زیادہ درآمدات منگواتا ہے۔

جبکہ ایک دوسرے صارف نے لکھا کہ پاکستان پہلے سے ’زارا‘ کا بائیکاٹ کر رہا ہے کیونکہ یہاں زارا کا کوئی آفیشل سٹور نہیں ہے اس لیے یہ آسان ہے۔

مگر وردا کے لیے زارا کے بائیکاٹ کی وجہ کچھ اور تھی۔ وہ کہتی ہیں کہ ‘شکر ہے بائیکاٹ زارا ٹرینڈ کر رہا ہے۔ بہت ہی مہنگا برانڈ ہے۔

Tags

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close