واشنگٹن: امریکی ایوان نمائندگان کی خارجہ امور کی کمیٹی کے اجلاس میں افغانستان سے متعلق بریفنگ کے دوران انٹونی بلنکن نے کہا کہ ہمیں افغانستان سے انخلا کے لیے ایک ڈیڈ لائن وراثت میں ملی تھی لیکن اس کے لیے کوئی منصوبہ نہیں ملا تھ
سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے فروری 2020 میں طالبان کے ساتھ معاہدے اور امریکی فوجیوں کے انخلا کے بعد نائن الیون کے بعد سے طالبان مضبوط ترین فوجی پوزیشن میں تھے جب کہ ہمارے پاس 2001 کے بعد زمین پر سب سے کم تعداد میں فوجی موجود تھے، صدارت کا عہدہ سنبھالتے ہی صدر بائیڈن کو فوری طور پر اس بات کا انتخاب کرنا پڑا کہ وہ افغانستان میں جنگ کا خاتمہ کریں یا اسے مزید بڑھاوا دیں۔
انٹونی بلنکن نے کہا کہ اگر ہم سابق امریکی حکومت کی جانب سے کئے گئے وعدے پر عمل نہ کرتے تو افغانستان میں ہماری افواج اور ہمارے اتحادیوں پر حملے دوبارہ شروع ہو جاتے، بائیڈن انتظامیہ نے افغانستان میں بدترین حالات کے لیے تیاری کر رکھی تھی لیکن ہم یہ سوچ بھی نہیں سکتے تھے کہ امریکی افواج کی موجودگی میں کابل میں مغرب کی حمایت یافتہ حکومت اور اس کی فوج اس طرح پسپا ہوجائے گی۔ اگر 20 سال کے دوران اربوں ڈالر کی امداد، ساز و سامان اور تربیت بھی افغان سکیورٹی فورسز اور حکومت کو مستحکم نہیں کرسکی تو پھر وہاں مزید کیوں رہا جاتا۔
یہ بھی پڑ ھیں : امریکی ایوان نمائندگان میں پاکستانی دفاعی امداد پر سخت شرائط کا بل منظور
پاکستان کے ساتھ امریکا کے تعلقات پر نظرثانی سے متعلق پوچھے گئے سوال پر امریکی وزیر خارجہ نے الزام عائد کیا کہ ماضی میں پاکستان افغانستان میں حکومت کے قیام سے متعلق کئی اقدامات کئے ہیں، وہ طالبان کے ارکان خاص طور پر حقانی نیٹ ورک کے رہنماؤں کو پناہ دینے میں ملوث رہا، یہ ہی وہ ملک ہے جو ہمارے ساتھ انسداد دہشت گردی کے مختلف نکات پر تعاون بھی کرتا رہا۔ افغانستان کے حوالے سے پاکستان کے بہت زیادہ مفادات ہیں جن میں سے کچھ ہمارے مفادات سے متصادم ہیں، ہم آئندہ دنوں میں اس بات پر غور کریں گے کہ گزشتہ 20 برسوں میں پاکستان نے کیا کردار ادا کیا ہے اور ہم مستقبل میں پاکستان کا کیا کردار دیکھنا چاہتے ہیں۔
امریکی وزیر خارجہ نے کہا کہ طالبان افغانستان سے جانے کے خواہشمندوں کے محفوظ انخلا ، خواتین، بچیوں اور اقلیتوں کے حقوق کا احترام کریں، پاکستان کو ان مقاصد کے حصول کے لیے عالمی برادری کے ساتھ کھڑا ہونے کی ضرورت ہے۔ پاکستان اس وقت تک افغانستان میں طالبان کی حکومت کو قانونی طور پر تسلیم نہ کرے جب تک وہ عالمی برادری کے مطالبات کو نہ مان لیں۔