دنیا

بھارت میں فیس بک انتظامیہ اپنی آنکھیں بند کیے ہوئے ہے

فیس بک کی سابق ملازمہ اور ہب سیلب لور فرانسس ہوگن نے حال ہی میں کمپنی کے طرز عمل اور اس کی سنگین خامیوں کے بارے میں کئی چونکا دینے والے انکشافات کیے ہیں۔

ہوگن نے اپنے شکایتی خط کے ساتھ جو شواہد منسلک کیے ہیں ان میں ہندوستان سے متعلق فیس بک کے غلط استعمال کی ایک لمبی فہرست اور خاص طور پر دائیں بازو کی تنظیموں اور راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) کے نام شامل ہیں۔

ہوگن نے بیان کیا ہے کہ کس طرح خوف کا ماحول پیدا کرنے والا مواد صارفین ، گروہوں اور آر ایس ایس سے وابستہ پیج کے ذریعے پھیلایا جاتا ہے۔ ہیگن نے کمپنی کی داخلی دستاویزات کا حوالہ دیا،تاکہ یہ ظاہر کیا جا سکے کہ فیس بک کس طرح’عالمی تقسیم اور نسلی تشدد‘کو فروغ دے رہا ہے اور’سیاسی حساسیت‘کے نام پر ایسے گروہوں (ممکنہ طور پر آر ایس ایس سے وابستہ) کے خلاف کافی کارروائی نہیں کی گئی۔

فرانسس ہوگن ایک ڈیٹا سائنسدان ہیںجنہوں نے مئی 2021 تک فیس بک کے ساتھ کام کیا۔ کیمبرج اینالیٹیکا کے بعد یہ دوسرا بڑا نکشاف ہے جس نے ایک بار پھر فیس بک کو مشکل میں ڈال دیا ہے اور وہ اپنی شبیہ برقرار رکھنے کی کوشش کر رہا ہے۔

ہوگن کے مطابق فیس بک اس بات سے پوری طرح آگاہ ہے کہ ہندوستان میں آر ایس ایس کے حمایت یافتہ صارفین یا گروپس کے ذریعہ کس طرح مسلم مخالف چیزیں پھیلائی جا رہی ہیں۔ایک دستاویز میں کہا گیا ہے کہ اس طرح کی بہت سی غیرانسانی پوسٹیں لکھی جا رہی ہیں جہاں مسلمانوں کا موازنہ’خنزیر‘اور’کتوں‘سے کیا گیا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ قرآن کے بارے میں افواہیں پھیلائی جا رہی ہیں۔

فیس بک نے حال ہی میں کہا کہ چار ہندوستانی زبانیںہندی،بنگالی،اردو اور تامل کمپنی کے سسٹم میں شامل کیے گئے ہیں جو نفرت انگیز تقریروں کا پتہ لگانے کے لیے مفید ہوں گی۔ ہوگن کے وکیل کی جانب سے دائر شکایت میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ کس طرح’جعلی خبریں‘سوشل میڈیا پر تیزی سے شیئر کی جا رہی ہیں اور ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی جا رہی ہے۔ایک خفیہ دستاویز کے حوالے سے کہا گیا ہے کہ’ انڈیا،انڈونیشیا اور فلپائن کو فی گھنٹہ ایک ملین سے ڈیڑھ ملین جعلی خبروں کے تاثرات (لائکس ، شیئرز یا کمنٹس) موصول ہوتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ فیس بک کا ایک تصور’ڈیپ ری شیئر‘ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی پوسٹ کئی بار شیئر کی جارہیہے تو اس میں سنسنی خیز،نقصان دہ یا اشتعال انگیز مواد ہونے کا امکان ہے۔ اس سلسلے میں شکایت میں مغربی بنگال کا ایک نمونہ سروے پیش کیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ مغربی بنگال میں 40 فیصد سب سے زیادہ شیئر شدہ مواد غیر تصدیق شدہ/جعلی ہے۔ اس کے ساتھ فرانسس ہوگن نے یہ بھی انکشاف کیا ہے کہ فیس بک’ایک صارف کے متعدد اکاؤنٹس‘کے مسئلے کو حل کرنےکے قابل بھی نہیں ہے۔اس سلسلے میں بڑا سوال یہ ہے کہ کیا کمپنی’ڈبلیکیٹ‘اکاؤنٹس کو بند کرنے کی کوئی حقیقی کوشش کر رہی ہے یا اسے خدشہ ہے کہ ان اکاؤنٹس کو بند کرنے سے اس کے پلیٹ فارم کی’مصروفیت‘کم ہو جائے گی۔

بھارت میں سوشل میڈیا پیلٹ فارم فیس بک پر ہونےوالے پروپیگنڈے سے فیس بک انتظامیہ اچھی طرح واقف ہے۔

Tags

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close