ایرانی صدارتی الیکشن کا دوسرا مباحثہ، امیدواروں کا عالمی طاقتوں کیساتھ جوہری معاہدے کو نہ توڑنے کا اعلان
اسلام ٹائمز۔ اسلامی جمہوریہ ایران کے صدارتی امیدواروں کے درمیان دوسرے ٹی وی مناظرے میں سبھی امیدواروں نے جہاں ثقافتی اور سیاسی موضوعات پر اپنے اپنے پروگرام پیش کئے وہیں ایک دوسرے کی ثقافتی اور سیاسی پالیسیوں پر تنقید بھی کی۔ دوسرے براہ راست ٹی وی مناظرے میں ثقافتی اور سیاسی موضوعات پر دلچسپ بحث دیکھنے کو ملی۔ اسلامی جمہوریہ ایران کے صدارتی الیکشن کے امیدوار، موجودہ صدر حسن روحانی نے جہاں اپنی داخلہ اور خارجہ پالیسی کا دفاع کیا وہیں دیگر امیدواروں نے ان کی پالیسیوں پر کُھل کر تنقید کی۔ دوسرے مناظرے کے پہلے مقرر تہران کے موجودہ میئر اور صدارتی امیدوار محمد باقر قالیباف تھے۔ انہوں نے صوبہ گلستان میں کوئلے کی کان میں رونما ہونے والے حادثے میں جاں بحق ہونے والوں کے اہلخانہ کو تعزیت پیش کرتے ہوئے کہاکہ ثقافتی موضوع ہر معاشرے کا اہم موضوع ہوتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ثقافتی امور میں وزارت تعلیم کا اہم کردار ہوتا ہے اور وہ معاشرے میں ثقافتی لحاظ سے مثبت رول ادا کرسکتی ہے۔ موجودہ صدر اور صدارتی امیدوار حسن روحانی نے کہاکہ اگر ہم ثقافتی اقدار کو بلند کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں اس کے بنیادی ڈھانچوں پر توجہ دینا چاہئے اور ان میں سب سے اہم اخلاق ہے۔
صدارتی امیدوار ہاشمی طبا نے تعلیم و تربیت کے شعبے میں حکومتی پالیسی پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ وزارت تعلیم میں تربیتی پہلو پر زیادہ سے زیادہ توجہ دی جانی چاہئے۔ صدارتی امیدواراور موجودہ نائب صدر اسحاق جہانگیری نے بھی وزارت تعلیم کی ذمہ داریوں اور اس کی اہمیت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہاکہ ہم نے اپنی حکومت میں اساتذہ کی تنخواہوں میں کافی حدتک اضافہ کیا ہے اور وزارت تعلیم پر خاص توجہ دی ہے۔ ایک اور صدارتی امیدوار سید ابراہیم رئیسی نے بھی تعلیم وتربیت کی اہمیت پر تاکید کرتے ہوئے کہاکہ اسکولوں اور کالجوں کے اساتذہ کا ہر لحاظ سے خیال رکھنے کی ضرورت ہے اور ساتھ ہی جو طلبا یونیورسٹیوں سے تعلیم مکمل کرکے باہر نکلتےہیں ان کے لئے روزگار کی فراہمی ضروری ہے۔ ایک اور امیدوار مصطفے آقا میر سلیم نے کہا کہ ملک میں علمی کام ایسا ہونا چاہئے کہ ہم ملک کے مسائل کو اپنے اساتذہ اور طلبا کے ذریعے پہچانیں۔
براہ راست ٹی وی مناظرے میں سبھی صدارتی امیدواروں نے ملک کی داخلہ اور خارجہ پالیسیوں پر بھی کھل کر بات کی۔ ابراہیم رئیسی نے ایٹمی معاملے میں ایرانی عوام کے حقوق کے تحفظ اور ایٹمی معاہدے کے پیش نظر پابندیوں کے خاتمے کے بارے میں اپنی حکومت کی حکمت عملی اور امریکا کے ذریعے ایٹمی معاہدے کی خلاف ورزی کے بارے میں پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ ایٹمی معاہدہ ایک ایسا سمجھوتہ ہے جو مذاکرات کے نتیجے میں طے پایا ہے اگرچہ اس میں اُن کی نظر میں کافی مشکلات بھی ہیں لیکن چونکہ ایک قومی دستاویز ہے اس لئے ہم سب کو اس کا احترام کرنا چاہئے۔ انہوں نے موجودہ صدر اور صدارتی امیدوار حسن روحانی کے ایٹمی معاہدے اور پابندیوں کے خاتمے کے بارے میں دئےا گئے بیانات کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ روحانی صاحب نے وعدہ کیا تھا کہ ایٹمی معاہدہ ہوتے ہی سبھی پابندیاں ختم ہوجائیں گی لیکن ابھی تک اس کے اثرات ہم نے نہیں دیکھے اور بے روزگاری کا مسئلہ جوں کا توں باقی ہے۔
محمد باقر قالیباف نے بھی کہا کہ ایٹمی معاہدہ ایک قومی دستاویز ہے اور سبھی حکومتوں کو اس کا احترام کرنا ہوگا اور مقابل فریق بھی اس معاہدے کا احترام کرنے کا پابند ہے ۔اس پر حسن روحانی نے اپنی خارجہ پالیسی کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ ایران آج علاقے کی ایک بڑی طاقت بن چکا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایران آج سیاسی، اقتصادی اور دفاعی میدان میں ایک طاقتور ملک بن گیا ہے۔ انہوں نے شام کے مسائل کے حل میں ایران کے کردار اور کامیاب سفارتکاری کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ایران کی ہی کوششوں سے آستانہ مذاکرات انجام پا رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ یہ بہت ہی اہم ہے کہ اپنی سفارتی طاقت کے ذریعے ایران اور علاقے کی سیکیورٹی کو یقینی بنائیں۔ صدارتی امیدوار محمد باقر قالیباف نے کہا کہ موجودہ حکومت اگر یہ کہتی ہے کہ وہ ایٹمی مذاکرات میں کامیاب رہی ہے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ ایران سفارتکاری کے لحاظ سے پہلے سے ہی مضبوط پوزیشن میں تھا اور مقابل فریق ہماری سفارتکاری کی قوت کا اندازہ لگانے کے بعد ہی میز پر آنے کے لئے تیار ہوا ہے۔ صدارتی امیدواروں کے درمیان آخری اور تیسرا مباحثہ 12 مئی کو انجام پائیگا جس میں امیدواروں کی حتمی شکل بھی سامنے آجائیگی۔ توقع ظاہر کی جا رہی ہے کہ امیدوار ایک دوسرے کے حق میں بیٹھ سکتے ہیں اور قوی امکان ہے کہ صرف دو امیدواروں کے درمیان ہی بارہواں صدارتی الیکشن انجام پائے۔