وزیر اعظم مودی کی شناخت ایک سخت اور طاقتور حکمران کی ہے
انڈیا :حکومت نے 29 نومبر کو پارلیمان میں تینوں متنازع زرعی قوانین اسی تیزی سے کسی بحث و مباحثے کے بغیر واپس لیے جس طرح وہ سوا برس قبل ان قوانین کو لے کر آئی تھی
وزیر اعظم مودی کی شناخت ایک سخت اور طاقتور حکمران کی ہے۔ وہ اپنے فیصلوں اور کہی ہوئی باتوں کے سلسلے میں جھکنے اور پیچھے ہٹنے کے قائل نہیں ہیں لیکن ایک برس سے جاری کسانوں کی تحریک کے آگے وزیر اعظم مودی کو جھکنا پڑا۔
کسانوں کی تحریک سے وابستہ سیاسی کارکن نوکرن نت کہتی ہیں کہ ’پچھلے کچھ برسوں میں حکومت اور میڈیا نے یہ بیانیہ تخلیق کیا تھا کہ مودی کے سامنے کوئی اپوزیشن نہیں۔
’اگر مودی نہیں تو کون‘ کے بیانیے کے عام لوگ بھی قائل ہو گئے تھے۔ عوام انڈیا کی اپوزیشن کو ایک فرد، ایک چہرے میں تلاش کر رہے تھے۔ اس تحریک نے یہ ثابت کر دیا کہ اپوزیشن ملک کی عوام میں، اجتماعی تحریکوں میں ہے۔
متنازع قوانین کے خاتمے کے بعد بھی کسانوں نے اپنی تحریک ختم نہیں کی۔ اب یہ کسان فصل کی کم سے کم معاون قیمت کی آئینی ضمانت کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ وہ اب حکومت سے مذاکرات کی تیاریاں کر رہے ہیں اور اپنے مطالبات پر قائم ہیں۔
کسانوں کے کئی رہنماؤں نے الزام عائد کیا ہے کہ حکومت ان کے درمیان پھوٹ ڈالنا چاہتی ہے۔
اقتصادی ماہرین کا کہنا ہے کہ زرعی قوانین واپس لینے سے انڈیا میں نجکاری اور اقتصادی اصلاحات کے عمل کو زبردست دھچکا پہنچا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ انڈیا میں 70 فیصد سے زیادہ کسان چھوٹی زمینوں پر کام کرتے ہیں جو ان کی کفالت اور خوشحالی کے لیے ناکافی ہیں۔
ماہرین کے مطابق نئے زرعی قوانین کا مقصد ان کسانوں کو کھیتی باڑی سے ہٹا کر دیگر بہتر روزگار میں لگانا تھا۔ اس سے ان کی زمینیں بھی خالی ہو جاتیں جو بڑے بڑے کسان خرید لیتے یا پھر وہ صنعتی اور شہری ترقی میں کام آتیں۔
حکوت کا کہنا تھا کہ اس نے یہ قوانین کسانوں کی آمدنی بڑھانے اور ان کے حالات بہتر کرنے کے لیے بنائے تھے۔ حکومت کے مطابق ان قوانین کے ذریعے اوپن مارکیٹ کا نظریہ متعارف کروانا چاہتے تھے جہاں کسان اپنی فصل کے بہتر دام حاصل کر سکتا تھا تاہم حکومت کے مطابق کسان ان قوانین کی رو سمجھ نہ سکے۔
یہ بھی پڑ ھیں : نریندرا مودی کے بھارت میں انتہاپسندی اب پاگل پن کا روپ دھار چکی ہے
ان قوانین کے ختم کیے جانے سے کسان بہت خوش ہیں لیکن انھیں حکومت پر بھروسہ نہیں۔ ان کی لڑائی طویل ہے۔
ہریانہ کے محبوب نگر گاؤں کے ایک کسان ایوب خان کہتے ہیں کہ ’تینوں قوانین تو حکومت نے واپس لے لیے لیکن اب حکومت فصل کی ایک مقررہ قیمت کی ضمانت کا قانون بنائے۔ اس کے بغیر کسانوں کو فائدہ نہیں ہو گا۔ حکومت جب تک ہماری مانگ تسلیم نہیں کرتی ہم پیچھے نہیں ہٹیں گے۔
ایک اور کاشتکار محد عمر سید کا کہنا تھا کہ ’کسان تو مر رہا ہے۔ سرکار اگر کسانوں کو دبائے گی تو پھر سرکار کیسے بچے گی۔ کسان اور عام آدمی ہی تو سرکار بناتے بگاڑتے ہیں۔
مغربی اتر پریش کے کسان احتجاجی تحریک میں پیش پیش تھے۔ گزشتہ انتخابات میں اس خطے میں بی جے پی نے یکطرفہ کامیابی حاصل کی تھی۔ اس بار یہ صورتحال بدل سکتی ہے۔
نوکرن نت کہتی ہیں کہ ’بی جے پی کو گزشتہ سات برس میں یہ لگنے لگا تھا کہ وہ ناقابل شکست ہے۔ مودی حکومت کو کسی مزاحمت کا سامنا نہیں تھا۔ یہ تحریک بی جے پی کے منھ پر ایک طمانچہ ہے۔ یہ بی جے پی کے زوال کی شروعات بھی ہو سکتی ہے۔
قوانین اور کسانوں کی تحریک نے بی جے پی کو کتنا نقصان پہنچایا ہے اس کا اندازہ آئندہ مہینوں کے انتخابات میں ہو جائے گا لیکن اس تحریک نے یہ ضرور بتایا ہے کہ جمہوریت میں کوئی رہنما کتنا ہی طاقتور کیوں نہ ہو وہ ناقابل شکست نہیں ہوتا۔