امریکا نے آب و ہوا اور موسمیاتی تبدیلی کے پیرس معاہدے سے لاتعلقی کا اعلان کر دیا
واشنگٹن: امریکا نے آب و ہوا اور موسمیاتی تبدیلی کے پیرس معاہدے سے لا تعلقی کا اعلان کر دیا ہے جس سے دنیا بھر کے ماہرین اور اداروں میں تشویش کی لہر دوڑ گئی ہے۔ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے جاری حکم نامے کے مطابق امریکا نے 2016 میں پیرس میں طے پانے والے موسمیاتی تبدیلیوں کے عالمی معاہدے سے خود کو علیحدہ کر لیا ہے۔ برسوں کے غور و فکر کے بعد انتہائی باریکی سے کیا گیا یہ معاہدہ انسانی تاریخ میں ماحول اور موسمیاتی تبدیلیوں کے حوالے سے وضع کردہ سب سے مثر اور تفصیلی معاہدہ بھی تھا جس کی توثیق قریبا تمام ممالک نے کی تھی۔
اکتوبر 2015 میں پیرس میں منعقدہ غیرمعمولی کانفرنس کے بعد پیرس معاہدے کے چند اہم نکات یہ ہیں۔دنیا کے تمام (187) ممالک عالمی درجہ حرارت میں میں اضافہ 1.5 درجے سینٹی گریڈ کے اندر اندر رکھنے کی کوشش کریں گے۔عالمی درجہ حرارت میں اضافے کی وجہ بننے والی گرین ہاس گیسوں کی مقدار میں ہر ملک اپنے لحاظ سے کمی کرنے کی کوشش کرے گا۔ ہر ملک کاربن ڈائی آکسائیڈ اور دیگر گیسوں کی پیداوار میں اپنے حصے کے لحاظ سے کمی کا پابند ہو گا، مثلا امریکا ترقی یافتہ ممالک میں گرین ہاس گیس پیدا کرنے والا سرفہرست ملک ہے اور معاہدے کی رو سے امریکا نے عہد کیا تھا کہ جتنی گرین ہاس گیسیں وہ 2005 میں خارج کر رہا تھا اس کی شرح میں 2025 تک 28 فیصد تک کمی کی کوشش کرے گا، اسی لحاظ سے چین نے بھی ایسے ہی عہد کئے تھے،چونکہ غریب ممالک میں صنعتی ترقی کم ہے اور ماحول دشمن گیسوں میں ان کے اخراج کا حصہ بہت معمولی ہے اس لیے امیر ممالک ایک فنڈ قائم کر کے وہاں کے متاثرین کی مدد کریں گے اور اس ضمن میں قریبا 100 ارب ڈالر رقم کے وعدے کئے گئے تھے۔ اس کی ایک مثال پاکستان ہے جو گیسوں کے اخراج میں بہت پیچھے لیکن دنیا کے ان 10 ممالک میں شامل ہے جو کلائمٹ چینج سے شدید متاثر ہو رہے ہیں اور پورے پاکستان کے لوگ اب اسے محسوس بھی کر رہے ہیں۔ عین یہی حال بنگلا دیش اور افریقی ممالک کا بھی ہے۔امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے جاری اعلامیے میں کہا کہ امریکی عوام کے تحفظ اور فلاح کے لیے وہ یہ معاہدہ منسوخ کر رہے ہیں کیونکہ اس سے امریکا میں صنعتی عمل متاثر اور لاکھوں ملازمتیں خطرے میں پڑنے کا امکان تھا، تاہم اس معاہدے کی بجائے دیگر منصوبوں اور معاہدوں پر غور ضرور کیا جائے گا۔ انہوں نے اپنے بیان میں پیرس معاہدے کو ڈریکونین قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس سے ملک پر مالیاتی بوجھ پڑے گا۔
دوسری جانب انہوں نے اس معاہدے سے جڑے تمام اقدامات، عوامل اور کئے گئے فیصلوں کو بھی کالعدم قرار دیا ہے۔واضح رہے کہ اپنی انتخابی مہم میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بار بار پیرس معاہدے پر تنقید کی تھی اور اس کے متبادل معاہدے پر زور دیا تھا۔ امریکا کے اس فیصلے پر گرین پیس، گلوبل کاربن پروجیکٹ، فیوچر ارتھ، دنیا بھر کے ماہرین اور سائنسدانوں نے شدید مایوسی اور تنقید کا اظہار کیا ہےجبکہ امریکہ میں صدر ڈونلنڈ ٹرمپ کے اس فیصلے پر لوگوں نے شدید احتجاج کیا ہے جبکہ دنیا بھر سے بھی اس فیصلے پر ردعمل آ رہا ہے اور عالمی رہنماؤں نے اس فیصلے پر شدید مایوسی کا اظہار کیا ہے۔