کیا امریکہ تبت کے بہانے چین پر دباؤ بڑھا رہا ہے
امریکہ :عذرا ضیا انڈین نژاد امریکی ہیں اور کہا جاتا ہے کہ اُن کے والدین کے خاندان کا تعلق صوبہ بہار سے تھا
اپریل میں امریکی محکمہ خارجہ میں سینیٹر ٹم کین نے کہا تھا کہ عذرا اس سے قبل پانچ امریکی صدور کے ادوار میں محکمہ خارجہ میں مختلف خدمات سرانجام دے چکی ہیں۔ ان پانچ امریکی صدور میں سے تین ریپبلکن اور دو ڈیموکریٹس تھے۔
اپنی تقرری کے وقت عذرا نے بتایا تھا کہ وہ انڈین نژاد ہیں اور ان کے دادا انڈیا کی آزادی کے حامی تھے۔ وہ جارج ٹاؤن یونیورسٹی آف فارن سروس کی گریجویٹ ہیں۔
امریکی وزیر خارجہ اینٹونی بلنکن نے ایک ٹویٹ میں چین کے لیے حساس سمجھے والے معاملے یعنی تبت کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’ضیا کی تقرری تبت کے مذہبی، ثقافتی اور لسانی ورثے کے تحفظ اور چین کی جانب سے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا مقابلہ کرنے کے لیے امریکی عزم کا اظہار ہے۔‘
بلنکن نے کہا کہ ضیا انڈیا میں جلاوطن رہنے والے تبت کے روحانی پیشوا دلائی لامہ، یا جمہوری طور پر منتخب تبتی رہنماؤں اور چین کے درمیان بات چیت کی حوصلہ افزائی کریں گی۔
عذرا ضیا کی تقرری پر چین کی جانب سے شدید ردعمل سامنے آیا ہے۔
واشنگٹن میں چینی سفارت خانے نے امریکی اقدام کو ایک ’سیاسی چال‘ قرار دیا ہے۔ سفارت خانے کے ترجمان لیو پینگیو نے کہا کہ ’امریکہ کو چین کے اندرونی معاملات میں مداخلت اور عدم استحکام کو روکنا چاہیے۔‘
اس سے قبل چین نے گذشتہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دور میں کی گئی اِس نوعیت کی تقرری پر اعتراض کیا تھا۔
امریکہ اور چین کے تعلقات اس وقت انتہائی نازک دور سے گزر رہے ہیں۔ تجارت، تائیوان، انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں، بحیرہ جنوبی چین اور کورونا وبا جیسے موضوعات پر دونوں ممالک کے درمیان شدید اختلافات ہیں۔
تبت اور چین کے تعلقات میں سب سے زیادہ متنازع معاملہ تبت کی ’آزادی‘ کا ہے۔ چین میں کمیونسٹ حکومت قائم ہونے کے فوراً بعد، یعنی سنہ 1950 میں، یہ کہتے ہوئے کہ یہ ایک ’پرامن آزادی‘ ہے تبت میں فوج بھیج کر اسے چین میں شامل کر لیا تھا۔
یہ بھی پڑ ھیں : حضرت لعل شہباز قلندر مروندی
آہستہ آہستہ چین نے بدھ مت اکثریت والے اس خطے پر اپنا کنٹرول مضبوط کر لیا اور کمیونسٹ نظریے کا پرچار شروع کر دیا اسی دوران تبت میں وہاں کی مقامی زبان، ثقافت اور تعلیم کی حوصلہ شکنی بھی کی گئی۔
ہماچل پردیش کے دھرم شالہ میں رہنے والے تبت کے روحانی پیشوا دلائی لامہ سمیت بہت سے ناقدین تبت پر چین کی حکمرانی کو ’ثقافتی نسل کشی‘ قرار دیتے رہے ہیں۔
تبت کے بارے میں امریکہ کا رویہ بہت دلچسپ رہا ہے۔
انڈین تھنک ٹینک ’آبزرور ریسرچ فاؤنڈیشن‘ کے منوج جوشی لکھتے ہیں کہ ’ان مقاصد کی تکمیل کے لیے چین کی داخلی اور خارجی پالیسی کے مضمرات ہیں۔ جب سرحدوں کی بات آتی ہے تو انڈیا کے ساتھ تعلقات سب سے پہلے آتے ہیں۔ خاص طور پر سرحدی تنازعات اور ان کا انتظام۔ اب تک چین نے ان دونوں موضوعات پر صرف مضبوط پوزیشن کا اشارہ دیا ہے، اس لیے سرحدی علاقوں میں بنیادی ڈھانچے کی تعمیر سے انڈین فوج کی بڑھتی ہوئی صلاحیت چین کے لیے تناؤ پیدا کرتی ہے۔‘
سنہ 90 کی دہائی میں سوویت یونین کے ٹوٹنے کے بعد امریکہ دنیا کی واحد سپر پاور تھا لیکن اس دہائی سے چین کی معاشی ترقی اسے نئی بلندیوں پر لے جا رہی تھی۔
چیلانی کا کہنا ہے کہ انڈیا کو اپنے مفادات کو آگے بڑھانے کے لیے کام کرنا چاہیے ان کا مشورہ ہے کہ انڈیا کو پہلے اپنی مشرقی ہمالیائی سرحد کو ’انڈو، تبت سرحد‘ کہنا شروع کر دینا چاہیے۔
چیلانی لکھتے ہیں کہ ’انڈیا کو یہ کہنا چاہیے کہ تبت پر چین کے دعوؤں پر اس کا معاہدہ چین کے اس وعدے کے بعد کیا گیا تھا جس میں چین نے تبت کو حقیقی خود مختاری دینے کا وعدہ کیا تھا۔ یہ کہتے ہوئے کہ تبت اب دونوں ممالک کے درمیان بفر نہیں ہے، انڈیا کو ایک حد مقرر کرنی چاہیے۔‘
یہ تجویز کافی انقلابی ہے۔ انڈیا کی خارجہ پالیسی بنانے والے شاید ہی اس سمت میں سوچتے ہوں لیکن حالیہ برسوں میں خاص طور پر کواڈ کی تشکیل کے بعد امریکہ اور انڈیا کے درمیان جو قربتیں آئی ہیں اس کے بہت سے امکانات ہیں۔
چین کے ساتھ سرحد پر گزشتہ 18 ماہ کی کشیدگی کے بعد کیا ہندوستان تبت پر بھی کچھ نیا قدم اٹھا سکے گا ہے؟ کیا انڈیا بھی امریکہ سے متاثر ہو کر تبت پر کچھ نیا کام کرے گا؟